My Blog List

Thursday, February 15, 2018

ثابت کرو موت کے بعد زندگی ہے اور روح کیا ہے




بہت عرصہ پہلے ایک ملحدانہ پیج سے میرے ان باکس میں ایک سوال آیا. سوال کیا تھا گویا ایٹم بم تھا جو میرے سر پر گرایا گیا. ایٹم بم سے اس لیے تشبیہ دی ہے کیونکہ کم علمی میں ایسے سوالات دماغ کی صلاحیتوں کو تہس نہس کرنے کے بعد مفلوج کر دیتے ہیں. اپنے تئں جو بن پڑااسے جواب تو دیا لیکن حالت یہ تھی کہ اپنے جواب پر خود کو تسلی نہ تھی. اور دماغ میں کئ دن بڑے بڑے بلاسٹ ہوتے تھے. خیر میں نے اس موضوع کو دوبارہ سوالیہ نشان کے ساتھ ملحوں سمیت بہت سے مسلمانوں کی پوسٹس میں دیکھا تو سوچا اس پر سرچ کروں اورناقص عقل کے مطابق مکمل جواب لکھوں.

سوال یہ تھا کہ ثابت کرو موت کے بعد زندگی ہے اور روح کیا ہے

جواب: ایک امریکن بیالوجسٹ میک ڈوگل نے روح کا وزن ماپنے کا تجربہ کیا اور اسکے لیے 6 اشخاص جو ٹی بی کے مرض کا شکار تھے جن پر نزع کی کیفیت طاری تھی انہیں ایک انتہائی حساس مشین پر لٹا دیا گیا. یہ ایک بہت مشکل عمل تھا کہ مرتے ہوئے انسان کی روح کا وزن معلوم کیا جا سکے. لہذا 6 میں سے 5 بغیر تنائج کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جو ایک بچاموت سے پہلے اس کا وزن کر کے اسے نوٹ کر لیا گیا. اور پھر اسکی موت کا انتظار کرتے رہے جیسے ہی اسکی موت واقع ہوئی دوبارہ وزن کیا گیا تو معلوم ہوا وزن میں پہلے سے کمی آگئ ہے. اور یہ کمی صرف 21 گرام تھی. یعنی اسکے وزن میں زندگی سے موت کے عمل کے دوران جو تبدیلی واقع ہوئی وہ 21 گرام کمی تھی. جس کی مزید تحقیق کی گئ تو معلوم ہوا. (21 گرام کی یہ کمی اس کے پھیپھڑوں میں موجود آکسیجن کے اخراج سے واقع ہوئی. لہذا اس آکسیجن کو روح سمجھ لیا گیا)اسکے بعد میک ڈوگل نے یہی تجربہ 4 کتّوں پر کیا تو معلوم ہوا انکے جسمانی وزن میں مرنے کے بعد کمی نہیں آئی لہذا کتے روح نہیں رکھتے جبکہ انسان کے اندر روح موجود ہے. میک ڈوگل کی یہ تھیوری Soul has weight کے نام سے بہت مشہور ہوئی. اور اس پر بے شمار فلمیں بنائی گئیں.
بعد ازاں اس تھیوری کے رد کے طور پر بہت سی اور تھیوریز پیش کی گئیں. وہ اگر درست بھی تھیں تو انہیں اسقدر مقبولیت نہ ملی.
اس موضوع پر علم فلسفہ کو جب مطالعہ کیا تو مجھے خاطر خواہ جوابات ملے. اور زہنی تشفی سقراط کو پڑھنے کے بعد ہی حاصل ہوئی. آئیے سقراط کی زبانی یہ جواب سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. ایک پرانی حکایت ہے کہ روحیں مسلسل یہاں سے اس دنیا میں جاتی رہتی ہیں اور وہاں سے پھر آکر مردہ سے زندہ ہوجاتیں ہیں. اگر یہ سچ ہے کہ زندہ , مردہ ہی سے پیدا ہوتے ہیں تو پھر ہماری روحیں لازماً دوسری دنیا میں موجود رہی ہونگی کیونک اگر ایسا نہ مانا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوبارہ زندہ ہوسکیں. اصل میں اگر یہ ثابت کیا جاسکے کہ زندہ کہیں اور سے نہیں بلکہ مردہ ہی سے پیدا ہوتے ہیں تو پھر اس امر کو کافی ثبوت ہوگا کہ روحیں دوسری دنیا میں باقی رہتی ہیں اور اگر یہ ٹھیک نہیں تو پھر کوئی دوسری رائے ہونی چاہیے. اور یقیناً یہ ٹھیک ہے کیونکہ کوئی متضاد رائے موجود نہیں.
آؤ ہم دیکھیں کہ جہاں کہیں بھی متضاد کا جوڑا ہے جیسے خوبصورت و بد صورت, عدل و ظلم اور ایسے ہی ہزار ہا دوسرے جوڑے ان سب میں کیا چیز ایسے ہی وجود میں آئی ہے کہ ہمیشہ متضاد کو جنم دیتا ہے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں.
ایسے ہی کمزور طاقتور سے اور سست تیز رفتار سے سے جنم لیتا ہے.اگر ایک چیز بدتر بنتی ہے تو بہترین سے بنتی ہے اور انصاف ناانصافی سے آتا ہے. ہر شے ایسے ہی وجود میں آتی ہے متضاد سے متضاد جنم لیتا ہے. متضاد اشیاء کے درمیان ہمیشہ دو ایسے عمل پیدائش موجود ہوتے ہیں جو ایک متضاد سے دوسرے متضاد کی طرف جاری و ساری رہتے ہیں. جہاں کہیں بھی بڑا اور چھوٹا ہوتا ہے انہی کے درمیان گٹھنے اور بڑھنے کا عمل پیدائش بھی ہے. ایسے ہی زیادہ اور تھوڑے کے درمیان بھی زیادہ اور کم ہونے کا عمل پیدائش ہے جس میں ایک زیادہ ہورہا ہے تو دوسرا کم. یہی صورت دیگر اعمال کی ہے جیسے علیحدگی و یکجائی, ٹھنڈا وگرم اور ایسے ہی ان سب متضادات کے درمیان عمل پیدائش ہوتا ہے. اگر سونے کا متضاد جاگنا ہے ایسے ہی زندگی کا متضاد ہے موت. اگر یہ متضاد ہیں تو لازماً اکی دوسرے سے وجود پذیر ہوئے ہیں. اور انکے درمیان دوعمل پیدائش بھی ہو سکتے ہیں. تو زندہ چاہے اشیاء ہوں یا انسان, مردہ ہی سے پیدا ہوتےہیں. یونہی متبادر ہوتا ہے. تو پھر ہماری روحیں بھی دوسری دنیا میں موجود ہوتی ہیں. زندگی اور موت کے درمیان جو دو عمل پیدائش ہیں ان میں ایک تو بہت واضح ہے . میرا مطلب ہے مرنے کا عمل نمایاں ہے. یہی اس امر کا ثبوت ہے کہ مردہ لوگوں کی ارواح لازماً کہیں زندہ رہتی ہیں. جہاں سے ہمارے خیال کے مطابق وہ دوبارہ پیدا ہوتی ہیں.
اگر متضاد ,متضاد کی جگہ لینے کے لیے مسلسل نہ لوٹتے رہیں اور پیدائش کی نوعیت ایک دائرے میں گردش جیسی نہ ہو بلکہ اسکی بجائے پیدائش کی نوعیت یہ مان لی جائے کہ متضاد صرف ایک بار اپنے متضاد کی طرف لوٹتا ہے اور پھر کبھی نہیں. تو یقین کرو کہ آخر سب اشیاء ایک ہی صورت اختیار کر لیتیں ایک ہی عمل سے گزرتیں اور آخر کار عمل پیدائش رک جاتا.
ہر شے جو زندہ ہے , مر جائے اور مرنے کے بعد اسی حالت میں رہے , پھر کبھی زندگی کی طرف لوٹ کر نہ آئے تو آخر کار یہ ہوگا کہ سب اشیاء موت سے ہمکنار ہوجائیں گی. اور کچھ زندہ نہ بچے گا. کیونکہ اگر زندہ مردہ کی بجائے کسی اور طریقہ سے ہوتے اور زندہ ہی مر جاتے .تب تو موت ہی سب اشیاء کو نگل لیتی. دوبارہ زندہ ہونا حقیقتاً سچ ہے, زندہ ہی سے مردہ پیدا ہوتے ہیں مردہ لوگوں کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور نیک روحیں بری روحوں کے مقابلے میں بہت بہتر مقام پر ہوتی ہیں.
..............................................................................................
ونفخت فیہ من روحی(سورئہ حجر‘ آیت ۲۹)
"
ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا۔"
وقالوا اذا ضللنا فی الارض ائنالفی خلق جدید بل ھم بلقاء ربھم کافرون‘ قل یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون(سورئہ سجدہ‘ آیت ۱۱)
"
انہوں نے کہا کہ جب ہم مٹی میں مل چکے ہوں گے‘ تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ کہہ دو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے‘ تم کو پورے کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا‘ پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے۔"
اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منا مہا فیمسک التی قضیٰ علیھا الموت و یرسل الاخری الیٰ اجل مسمیٰ ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون
(
سورئہ زمر‘ آیت ۴۲)
"
اللہ سبحان وتعالٰی نفسوں کو موت کے وقت اور جو ابھی نہیں مرا‘ اسے نیند کے موقع پر مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے‘ اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک معین وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔"
موت کے بعد کی زندگی
کیا انسان موت کے بعد ایک دم عالم قیامت میں داخل ہو گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا یا موت اور قیامت کے مابین ایک خاص عالم کو طے کرے گا اور جب قیامت کبریٰ برپا ہو گی‘ تو عالم قیامت میں داخل ہو گا؟
اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ قیامت کبریٰ کب برپا ہو گی؟ انبیاء اور رسل نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم کے نصوص اور رسول اللہ ص کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی موت کے فوراً بعد قیامت کبریٰ میں داخل نہیں ہو گا‘ کیونکہ قیامت کبریٰ تمام ذہنی‘ زمینی اور آسمانی موجودات جیسے پہاڑ‘ دریا‘ چاند‘ سورج‘ ستارے اور کہکشاں میں ایک کلی انقلاب اور مکمل تبدیلی کے ہمراہ ہو گی‘ یعنی قیامت کبریٰ کے موقع پر کوئی چیز بھی اپنی موجودہ حالت پر برقرار نہیں رہے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے‘ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابھی نظام عالم برقرار ہے اور شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں سال قائم رہے اور اربوں انسان ایک دوسرے کے بعد اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی رو سے (جیسے بعض آیات سے معلوم ہوا‘ جن کا ذکر بعد میں ہو گا) کوئی بھی شخص ایسا نہیں‘ جس کی عمر قیامت کبریٰ اور موت کے درمیانی فاصلے میں سکوت اور بے حسی میں گذر جائے۔ یعنی ایسا نہیں کہ مرنے کے بعد انسان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہو‘ کسی چیز کو محسوس کرے اور نہ لذت ہو نہ الم نہ اسے سرور حاصل ہو سکے‘ نہ ہی غم و اندوہ بلکہ مرنے کے بعد انسان فوراً حیات کے ایسے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے اور کچھ سے تکلیف‘ البتہ اس لذت و الم کا ربط اس کے دنیوی افکار‘ اعمال اور اخلاق سے ہے۔ قیامت کبریٰ تک یہ مرحلہ جاری رہتا ہے‘ لیکن جب آن واحد میں ایک کلی انقلاب اور تبدیلی تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور دور ترین ستاروں سے لے کر ہماری زمین تک ہر چیز اس انقلاب اور تبدیلی کی زد میں ہو گی‘ تب یہ مرحلہ یا یہ عالم جو سب کے لئے دنیا و قیامت کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا‘ اختتام پذیر ہو گا‘ لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں موت کے بعد کے عالم میں دو مرحلے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں مرنے کے بعد انسان دو مراحل طے کرے گا۔
ایک عالم برزخ جو عالم دنیا کی طرح ختم ہو جائے گا اور دوسرا عالم قیامت کبریٰ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا.
عالم برزخ
اگر دو چیزوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے‘ تو اسے برزخ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے موت اور قیامت کے درمیان کی زندگی کو عالم برزخ سے تعبیر کیا ہے۔
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فی ماترکت کلا انھا کلمة ھو قآئلھا و من و رائھم برزخ الی یوم یبعثون
(
سورئہ مومنون‘ آیت ۱۰۰)
"
جب ان میں سے کسی ایک کے پاس موت آئے گی‘ تو وہ عرض کرے گا بار الہا! مجھے پلٹا دے تاکہ جو اعمال صالح ترک کئے ہیں‘ ان کو بجا لاؤں ہرگز نہیں یہ تو وہ زبانی گفتگو ہے‘ جس کا قائل وہ ہے اور اس کے پیچھے برزخ اور فاصلہ ہے‘ اس دن تک جب یہ اٹھائے جائیں گے۔"
طالبِ دعا
#صباءسعید


No comments:

Post a Comment