My Blog List

Saturday, November 3, 2018

عقل کا فیصلہ



بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتاً ہزاروں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانہ میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ ان قمقموں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا ہم کو علم ہے۔ ان کام کرنے والوں پر جو انجینئر نگرانی کر رہا ہے، ا س کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجینئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے، اس کے پاس بہت سی کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تار جن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہو تاکہ اس کارخانہ کا کوئی انجینئر ہے جو اپنے علم اور اپنی قدرت سے اس کو چلا رہا ہے۔ کیا اس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے ؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی علتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہونا، دماغوں کا اس راز سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات و آراء کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
اب اس مفروضے پر سلسلہ کلام کو آگے بڑھایئے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے درحقیقت عالم واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں۔ لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہرو آثار کو دیکھ کر حیران و ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو انہیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں، انہی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پید اکر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراء چند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتی۔ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں، ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائیو! میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے، اس ذریعہ سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں جنہیں بے شمار اشخاص چلا رہے ہیں۔ یہ سب اشخاص ایک بڑے انجینئر کے تابع ہیں اور وہی انجینئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔ اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اس کو دیوانہ قرار دیتے ہیں۔ اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے قول میں ذرہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہٖ یہی قول، اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، پھر چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیشروؤں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان اور حالات کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر طریقہ سے انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آ جائیں مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ ان لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں۔ سیرتیں انتہا درجہ کی نیک ہیں اور حسن خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اخلاق، تزکیہ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علماء و عقلاء کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صرف کر دینی پڑتی ہیں۔
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذبین ہیں اور دوسری طرف یہ متحد الخیال مدعی۔ دونوں کا معاملہ عقل سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابل ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امر واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، اُن کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انہی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیّت سے بڑھ کر وہ بھی کوئی حکم نہیں لگا سکتا کیونکہ مِسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امر واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے لیکن قطعیت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتا۔
مکذبین کی پوزیشن یہ ہے:۔
۱۔ حقیقت کے متعلق ان کے نظریئے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتہ میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
۲۔ وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاسات کاقیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
۳۔ اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریہ کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریہ کی تردید کر دی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اکثر ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
۴۔ مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا۔ انہوں نے وہ مخفی تار ہم کو نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انہی سے ہے، نہ انہوں نے بجلی کا وجود تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجینئر سے ہم کو ملایا، پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں ؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے:
۱۔ وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعوے کے جتنے بنیادی نکات ہیں ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
۲۔ ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔
۳۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بناء پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالاتفاق کہا ہے کہ ا نجینئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں، اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخانے کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا ء پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
۴۔ ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرہ برابر بھی تغیر و تبدل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعوے کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
۵۔ ان کی سیرتیں انتہا درجہ کی پاکیزہ ہیں، جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کچھ لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملہ میں بالاتفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
۶۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعوے پیش کرنے سے ان کے پیش نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں۔ جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے اور پیٹے گئے، جلاوطن کیے گئے، بعض قتل کر دیئے گئے، حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسر نہ ہوئی۔ لہذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجہ کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
۷۔ ان کے متعلق مجنوں یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجہ کے دانشمند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانشمندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملہ میں جنون لاحق ہو گیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو، جس کے لیے انہوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو، جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں، جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات کا (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
۸۔ انہوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجینئر یا اس کے کارندوں سے تمہاری ملاقات کرا سکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمہیں دکھا سکتے ہیں، یا تجربہ اور مشاہدہ سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو غیب سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اولاً: ان میں سے کسی میں استحالہ عقلی نہیں ہے۔ یعنی قوانینِ عقلی کے لحاظ سے کسی نظریہ کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا صحیح ہونا غیر ممکن ہے۔ ثانیاً : ان میں سے کسی کی صحت، تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جا سکتی نہ فریقِ اول میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کرے اور نہ فریق ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غور و تحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا ء پر تمام نظریات میں سے فریق ثانی کا نظریہ قابل ترجیح قرار پاتا ہے۔
اولا ً، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے یقین و ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیاً، ایسے پاکیزہ کریکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اس دعوے پر متفق ہو جانا کہ ان سب کے پاس ایک غیر معمولی ذریعہ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعہ سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ہے، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انہوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالہ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانین عقلی کی بناء پر محال قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیر معمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثا ً، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریق ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ نہ اُن کی روشنی و حرکت ان کے مادہ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے کیونکہ جب وہ متحرک اور روشن نہیں ہوتے، اس وقت بھی یہی ترکیب جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیر اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہوتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہذا خارجی مظاہر کی توجیہہ میں فریق اول کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کار فرما ہو اور اس کا سر رشتہ کسی ایسے حکیم توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوت کو مختلف مظاہر میں صرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشککّین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کر سکتے، تو حاکم عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی بات کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سننے والوں کو سمجھ میں بھی آ جائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے کے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند معتبر آدمی آ کر کہیں کہ ہم نے زمینِ مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اڑتے دیکھا ہے، اور ہم اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکہ کا گانا سن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہیں ؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ نہ جھوٹے ہیں، نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس روایت سے وابستہ ہے، اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقلمند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقیناً اس کو تسلیم کر لیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اڑنا اور کسی محسوس واسطہ کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلہ پر سنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
یہ اس معاملہ میں عقل کا فیصلہ ہے، مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام ’’ایمان‘‘ ہے، اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دل کے ٹُھک جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت سے بیان کیا ہے۔
مولانا ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ۔




Thursday, February 15, 2018

ثابت کرو موت کے بعد زندگی ہے اور روح کیا ہے




بہت عرصہ پہلے ایک ملحدانہ پیج سے میرے ان باکس میں ایک سوال آیا. سوال کیا تھا گویا ایٹم بم تھا جو میرے سر پر گرایا گیا. ایٹم بم سے اس لیے تشبیہ دی ہے کیونکہ کم علمی میں ایسے سوالات دماغ کی صلاحیتوں کو تہس نہس کرنے کے بعد مفلوج کر دیتے ہیں. اپنے تئں جو بن پڑااسے جواب تو دیا لیکن حالت یہ تھی کہ اپنے جواب پر خود کو تسلی نہ تھی. اور دماغ میں کئ دن بڑے بڑے بلاسٹ ہوتے تھے. خیر میں نے اس موضوع کو دوبارہ سوالیہ نشان کے ساتھ ملحوں سمیت بہت سے مسلمانوں کی پوسٹس میں دیکھا تو سوچا اس پر سرچ کروں اورناقص عقل کے مطابق مکمل جواب لکھوں.

سوال یہ تھا کہ ثابت کرو موت کے بعد زندگی ہے اور روح کیا ہے

جواب: ایک امریکن بیالوجسٹ میک ڈوگل نے روح کا وزن ماپنے کا تجربہ کیا اور اسکے لیے 6 اشخاص جو ٹی بی کے مرض کا شکار تھے جن پر نزع کی کیفیت طاری تھی انہیں ایک انتہائی حساس مشین پر لٹا دیا گیا. یہ ایک بہت مشکل عمل تھا کہ مرتے ہوئے انسان کی روح کا وزن معلوم کیا جا سکے. لہذا 6 میں سے 5 بغیر تنائج کے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جو ایک بچاموت سے پہلے اس کا وزن کر کے اسے نوٹ کر لیا گیا. اور پھر اسکی موت کا انتظار کرتے رہے جیسے ہی اسکی موت واقع ہوئی دوبارہ وزن کیا گیا تو معلوم ہوا وزن میں پہلے سے کمی آگئ ہے. اور یہ کمی صرف 21 گرام تھی. یعنی اسکے وزن میں زندگی سے موت کے عمل کے دوران جو تبدیلی واقع ہوئی وہ 21 گرام کمی تھی. جس کی مزید تحقیق کی گئ تو معلوم ہوا. (21 گرام کی یہ کمی اس کے پھیپھڑوں میں موجود آکسیجن کے اخراج سے واقع ہوئی. لہذا اس آکسیجن کو روح سمجھ لیا گیا)اسکے بعد میک ڈوگل نے یہی تجربہ 4 کتّوں پر کیا تو معلوم ہوا انکے جسمانی وزن میں مرنے کے بعد کمی نہیں آئی لہذا کتے روح نہیں رکھتے جبکہ انسان کے اندر روح موجود ہے. میک ڈوگل کی یہ تھیوری Soul has weight کے نام سے بہت مشہور ہوئی. اور اس پر بے شمار فلمیں بنائی گئیں.
بعد ازاں اس تھیوری کے رد کے طور پر بہت سی اور تھیوریز پیش کی گئیں. وہ اگر درست بھی تھیں تو انہیں اسقدر مقبولیت نہ ملی.
اس موضوع پر علم فلسفہ کو جب مطالعہ کیا تو مجھے خاطر خواہ جوابات ملے. اور زہنی تشفی سقراط کو پڑھنے کے بعد ہی حاصل ہوئی. آئیے سقراط کی زبانی یہ جواب سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. ایک پرانی حکایت ہے کہ روحیں مسلسل یہاں سے اس دنیا میں جاتی رہتی ہیں اور وہاں سے پھر آکر مردہ سے زندہ ہوجاتیں ہیں. اگر یہ سچ ہے کہ زندہ , مردہ ہی سے پیدا ہوتے ہیں تو پھر ہماری روحیں لازماً دوسری دنیا میں موجود رہی ہونگی کیونک اگر ایسا نہ مانا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوبارہ زندہ ہوسکیں. اصل میں اگر یہ ثابت کیا جاسکے کہ زندہ کہیں اور سے نہیں بلکہ مردہ ہی سے پیدا ہوتے ہیں تو پھر اس امر کو کافی ثبوت ہوگا کہ روحیں دوسری دنیا میں باقی رہتی ہیں اور اگر یہ ٹھیک نہیں تو پھر کوئی دوسری رائے ہونی چاہیے. اور یقیناً یہ ٹھیک ہے کیونکہ کوئی متضاد رائے موجود نہیں.
آؤ ہم دیکھیں کہ جہاں کہیں بھی متضاد کا جوڑا ہے جیسے خوبصورت و بد صورت, عدل و ظلم اور ایسے ہی ہزار ہا دوسرے جوڑے ان سب میں کیا چیز ایسے ہی وجود میں آئی ہے کہ ہمیشہ متضاد کو جنم دیتا ہے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں.
ایسے ہی کمزور طاقتور سے اور سست تیز رفتار سے سے جنم لیتا ہے.اگر ایک چیز بدتر بنتی ہے تو بہترین سے بنتی ہے اور انصاف ناانصافی سے آتا ہے. ہر شے ایسے ہی وجود میں آتی ہے متضاد سے متضاد جنم لیتا ہے. متضاد اشیاء کے درمیان ہمیشہ دو ایسے عمل پیدائش موجود ہوتے ہیں جو ایک متضاد سے دوسرے متضاد کی طرف جاری و ساری رہتے ہیں. جہاں کہیں بھی بڑا اور چھوٹا ہوتا ہے انہی کے درمیان گٹھنے اور بڑھنے کا عمل پیدائش بھی ہے. ایسے ہی زیادہ اور تھوڑے کے درمیان بھی زیادہ اور کم ہونے کا عمل پیدائش ہے جس میں ایک زیادہ ہورہا ہے تو دوسرا کم. یہی صورت دیگر اعمال کی ہے جیسے علیحدگی و یکجائی, ٹھنڈا وگرم اور ایسے ہی ان سب متضادات کے درمیان عمل پیدائش ہوتا ہے. اگر سونے کا متضاد جاگنا ہے ایسے ہی زندگی کا متضاد ہے موت. اگر یہ متضاد ہیں تو لازماً اکی دوسرے سے وجود پذیر ہوئے ہیں. اور انکے درمیان دوعمل پیدائش بھی ہو سکتے ہیں. تو زندہ چاہے اشیاء ہوں یا انسان, مردہ ہی سے پیدا ہوتےہیں. یونہی متبادر ہوتا ہے. تو پھر ہماری روحیں بھی دوسری دنیا میں موجود ہوتی ہیں. زندگی اور موت کے درمیان جو دو عمل پیدائش ہیں ان میں ایک تو بہت واضح ہے . میرا مطلب ہے مرنے کا عمل نمایاں ہے. یہی اس امر کا ثبوت ہے کہ مردہ لوگوں کی ارواح لازماً کہیں زندہ رہتی ہیں. جہاں سے ہمارے خیال کے مطابق وہ دوبارہ پیدا ہوتی ہیں.
اگر متضاد ,متضاد کی جگہ لینے کے لیے مسلسل نہ لوٹتے رہیں اور پیدائش کی نوعیت ایک دائرے میں گردش جیسی نہ ہو بلکہ اسکی بجائے پیدائش کی نوعیت یہ مان لی جائے کہ متضاد صرف ایک بار اپنے متضاد کی طرف لوٹتا ہے اور پھر کبھی نہیں. تو یقین کرو کہ آخر سب اشیاء ایک ہی صورت اختیار کر لیتیں ایک ہی عمل سے گزرتیں اور آخر کار عمل پیدائش رک جاتا.
ہر شے جو زندہ ہے , مر جائے اور مرنے کے بعد اسی حالت میں رہے , پھر کبھی زندگی کی طرف لوٹ کر نہ آئے تو آخر کار یہ ہوگا کہ سب اشیاء موت سے ہمکنار ہوجائیں گی. اور کچھ زندہ نہ بچے گا. کیونکہ اگر زندہ مردہ کی بجائے کسی اور طریقہ سے ہوتے اور زندہ ہی مر جاتے .تب تو موت ہی سب اشیاء کو نگل لیتی. دوبارہ زندہ ہونا حقیقتاً سچ ہے, زندہ ہی سے مردہ پیدا ہوتے ہیں مردہ لوگوں کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور نیک روحیں بری روحوں کے مقابلے میں بہت بہتر مقام پر ہوتی ہیں.
..............................................................................................
ونفخت فیہ من روحی(سورئہ حجر‘ آیت ۲۹)
"
ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا۔"
وقالوا اذا ضللنا فی الارض ائنالفی خلق جدید بل ھم بلقاء ربھم کافرون‘ قل یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون(سورئہ سجدہ‘ آیت ۱۱)
"
انہوں نے کہا کہ جب ہم مٹی میں مل چکے ہوں گے‘ تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ کہہ دو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے‘ تم کو پورے کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا‘ پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے۔"
اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منا مہا فیمسک التی قضیٰ علیھا الموت و یرسل الاخری الیٰ اجل مسمیٰ ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون
(
سورئہ زمر‘ آیت ۴۲)
"
اللہ سبحان وتعالٰی نفسوں کو موت کے وقت اور جو ابھی نہیں مرا‘ اسے نیند کے موقع پر مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے‘ اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک معین وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔"
موت کے بعد کی زندگی
کیا انسان موت کے بعد ایک دم عالم قیامت میں داخل ہو گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا یا موت اور قیامت کے مابین ایک خاص عالم کو طے کرے گا اور جب قیامت کبریٰ برپا ہو گی‘ تو عالم قیامت میں داخل ہو گا؟
اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ قیامت کبریٰ کب برپا ہو گی؟ انبیاء اور رسل نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم کے نصوص اور رسول اللہ ص کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی موت کے فوراً بعد قیامت کبریٰ میں داخل نہیں ہو گا‘ کیونکہ قیامت کبریٰ تمام ذہنی‘ زمینی اور آسمانی موجودات جیسے پہاڑ‘ دریا‘ چاند‘ سورج‘ ستارے اور کہکشاں میں ایک کلی انقلاب اور مکمل تبدیلی کے ہمراہ ہو گی‘ یعنی قیامت کبریٰ کے موقع پر کوئی چیز بھی اپنی موجودہ حالت پر برقرار نہیں رہے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے‘ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابھی نظام عالم برقرار ہے اور شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں سال قائم رہے اور اربوں انسان ایک دوسرے کے بعد اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی رو سے (جیسے بعض آیات سے معلوم ہوا‘ جن کا ذکر بعد میں ہو گا) کوئی بھی شخص ایسا نہیں‘ جس کی عمر قیامت کبریٰ اور موت کے درمیانی فاصلے میں سکوت اور بے حسی میں گذر جائے۔ یعنی ایسا نہیں کہ مرنے کے بعد انسان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہو‘ کسی چیز کو محسوس کرے اور نہ لذت ہو نہ الم نہ اسے سرور حاصل ہو سکے‘ نہ ہی غم و اندوہ بلکہ مرنے کے بعد انسان فوراً حیات کے ایسے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے اور کچھ سے تکلیف‘ البتہ اس لذت و الم کا ربط اس کے دنیوی افکار‘ اعمال اور اخلاق سے ہے۔ قیامت کبریٰ تک یہ مرحلہ جاری رہتا ہے‘ لیکن جب آن واحد میں ایک کلی انقلاب اور تبدیلی تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور دور ترین ستاروں سے لے کر ہماری زمین تک ہر چیز اس انقلاب اور تبدیلی کی زد میں ہو گی‘ تب یہ مرحلہ یا یہ عالم جو سب کے لئے دنیا و قیامت کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا‘ اختتام پذیر ہو گا‘ لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں موت کے بعد کے عالم میں دو مرحلے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں مرنے کے بعد انسان دو مراحل طے کرے گا۔
ایک عالم برزخ جو عالم دنیا کی طرح ختم ہو جائے گا اور دوسرا عالم قیامت کبریٰ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا.
عالم برزخ
اگر دو چیزوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے‘ تو اسے برزخ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے موت اور قیامت کے درمیان کی زندگی کو عالم برزخ سے تعبیر کیا ہے۔
حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فی ماترکت کلا انھا کلمة ھو قآئلھا و من و رائھم برزخ الی یوم یبعثون
(
سورئہ مومنون‘ آیت ۱۰۰)
"
جب ان میں سے کسی ایک کے پاس موت آئے گی‘ تو وہ عرض کرے گا بار الہا! مجھے پلٹا دے تاکہ جو اعمال صالح ترک کئے ہیں‘ ان کو بجا لاؤں ہرگز نہیں یہ تو وہ زبانی گفتگو ہے‘ جس کا قائل وہ ہے اور اس کے پیچھے برزخ اور فاصلہ ہے‘ اس دن تک جب یہ اٹھائے جائیں گے۔"
طالبِ دعا
#صباءسعید


روح اور موت کے بعد کی زندگی کا وجود اور اس کے سائنسی دلائل





روح اور موت کے بعد کی زندگی کا وجود اور اس کے سائنسی دلائل
( کوانٹم واقف کار یا روح کا کوانٹم نظریہ۔۔۔۔Quantum consciousness or quantum soul theory)
امریکی ڈاکٹر سٹووارٹ ہیمراف اور برطانوی ماہر طبیعیات یا فزکس سر روجر پینروز نے انسانی ہوش و زندگی کی ایک کوانٹم تھیوری پیش کی ہے جس کے مطابق ہماری روح دماغ کے خلیوں یا سیلز میں موجود سیل یا خلیے کے ایک چھوٹے حصے یا آرگنیلی مائیکرو ٹیوبیولز میں ہوتی ہے۔
ان کے مطابق ہمارا ہوش و زندگی ان مائیکرو ٹیوبیولز کے اندر ایک کوانٹم ثقلی اثر۔۔۔کوانٹم گریویٹی ایفیکٹ۔۔۔کی وجہ سے ہے جسے وہ آرک آر۔۔۔Orch_Or یا Orchestrated objective reduction کہتے ہیں۔ان کی نظر میں یہ کوانٹم ثقلی اثر یا کوانٹم گریویٹی ایفیکٹ ہماری روح ہے جو ہمارے دماغ کے تمام خلیوں یا نیورانز کو چلاتی ہے جس سے دماغ کا یہ اثر پورے جسم میں روح کی صورت میں پھیل جاتا ہے۔اس نطریے کو روح کا کوانٹم نظریہ یا کوانٹم سول تھیوری کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ہیمراف کہتے ہیں
"
فرض کریں کہ ہمارا دل دھڑکنا بند کر دیتا ہے،خون کا جسم میں بہاؤ رک جاتا ہے،مائیکرو ٹیوبیولز کی کوانٹم حالت ختم ہوجاتی ہے لیکن ان مائیکرو ٹیوبیولز میں موجود کوانٹم معلومات جو ان دماغی خلیوں یا نیورانز کو چلاتی ہے اور انسان کو زندہ رکھتی ہے،پھر بھی تباہ نہیں ہوتی۔یہ محض تقسیم ہوتی ہے اور کائنات میں چلی جاتی ہے(جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ مرنے کے بعد روح اللٰہ تعالٰی کی طرف چلی جاتی ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوانٹم معلومات جو دماغ اور دماغ سے زندگی کو چلاتی ہیں مرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہوتی۔اس کے اندر انسان کی ساری زندگی کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے کہ انسان نے زندگی میں کیا کیا۔یہ مذہب کے اس تصور کا ثبوت ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح زندہ رہتی ہے اور انسان کے اعمال کی گواہ ہے اور اللٰہ کو موت کے بعد حساب دیتی ہے اور عالم برزخ میں اس سے جزا و سزا کا معاملہ ہوتا ہے۔اس طرح موت کے بعد کی زندگی کا وجود ثابت ہوتا ہے)۔
اگر انسان مرنے کے قریب ہوجائے لیکن اس کی جان بچ جائے تو زندگی چلانے والی یہ کوانٹم معلومات واپس مائیکرو ٹیوبیولز میں آجاتی ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں مرنے کے بہت قریب تھا۔اگر انسان مر جائے تو اس کی موت کے بعد جسم سے الگ یہ کوانٹم معلومات ہمیشہ روح کی صورت میں موجود رہتی ہے۔
حوالہ۔۔۔۔
http://www.news.com.au/…/n…/a02f2d9db939472b1a29d758c54e6a8d
بین الاقوامی سائنسدانوں کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ روح کے تصور کی کوانٹم فزکس سے وضاحت کی جاسکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انسانی روح ایک کوانٹم حالت رکھتی ہے جو ایسے ہی حقیقی ہے جیسا کہ زراتی موجی دوہرے پن۔۔۔۔Wave particle dualism.. کی حقیقت۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سائینسی طور پر انسانی روح کی کوانٹم فزکس سے وضاحت کی جاسکتی ہے۔
یہاں تک کہ بعض مستند سائنسدان جنوں تک کے تصور پر یقین رکھتے ہیں جس تصور کو ملحدین نہیں مانتے۔http://Huffingtonpost.co.uk کی رپورٹ کے مطابق
"
سان فرانسسکو کے ڈاکٹر جیمز جی جو کہ فرینکفرٹ جرمنی کے میکس پلانک سوسائیٹی کے معاون کام کار ہیں کہتے ہیں کہ میں نے نہ صرف امریکا بلکہ لندن میں بھی کیمسٹری کے کچھ سمسٹر کی تعلیم حاصل کی۔جب میں انگلینڈ آیا
تو ہاسٹل طلباء سے پر تھا۔مجھے رہائش کے لیے انتظار کرنا پڑا۔کچھ وقت کے بعد مجھے ایک خوشخبری ملی کہ ایک کمرہ خالی ہو چکا ھے اور میں اس کمرے میں رہنے لگا۔ایک رات کو میں اٹھا تو میں نے اپنے کمرے میں گھنگریالے سیاہ بالوں والے ایک نوجوان کو دیکھا۔میں خوفزدہ ہوگیا اور اپنے ہمسایہ کو یہ بتایا۔جب میں نے بتی جلائ تو وہ نوجوان غائب ہو گیا تھا۔مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میں خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔میں نے اس واقعے کی ساری تفصیل مکان مالک کو بتای۔اس کا رنگ یہ سن کر پیلا پڑ گیا۔اس نے مجھے یہ سن کر بتایا کہ یہ نوجوان پہلے ایک کرایہ دار کی جان لے چکا ہے۔"
اب دوبارہ روح کی بحث کی طرف آتے ہیں روح کا ایک اور ثبوت۔پروفیسر ڈاکٹر ہینز پیٹر ڈور۔۔۔Hans Peter Duŕŕ جو کہ فرینکفرٹ جرمنی کے میکس ویل پلانک فزکس انسٹٹیوٹ کے سابق سربراہ ہیں،کے مطابق چھوٹے ترین ذرات کا ذراتی موجی دوہرے پن کا تصور۔۔۔۔Wave Particles Dualism....صرف چھوٹے ایٹمی ذرات تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر تصور ہے۔دوسرے لفظوں میں ان کے مطابق روح اور جسم کے درمیان دوہرے پن کا تعلق اتنا ہی حقیقی ہے جیسا کہ چھوٹے ترین ذرات کا ذراتی موجی دوہرے پن کا کوانٹم نظریہ۔جسم اور روح کے درمیان یہ تعلق کوانٹم ثقلی اثر یا کوانٹم گریویٹی ایفیکٹ کی صورت میں یہ روح ہے۔ایک عالمگیر کوانٹم کوڈ موجود ہے جو کہ تمام زندہ اور مردہ مادے پر لاگو ہوتا ہے(یہ کوانٹم کوڈ پوری کائنات پر لاگو ہوتا ہے۔اس طرح یہ کوانٹم کوڈ نہ صرف روح کا وجود ثابت کرتا ہے بلکہ یہ لوح محفوظ کے اس مذہبی تصور کی تصدیق بھی کرتا ہے جس کے مطابق اللٰہ تعالٰی نے ہر چیز کی معلومات ایک خاص کوڈ کی صورت میں درج کردی ہیں۔اس طرح یہ کوانٹم کوڈ اللٰہ کی ذات کے وجود کو بھی ثابت کررہا ہے جس نے پوری کائنات پر ایک کوانٹم کوڈ لگا دیا اور اس سے وہ پوری کائنات کا علم رکھتا ہے)۔
اب روح اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں ایک سائنسدان کا تبصرہ پڑھیں۔
"
جو ہم اس دنیا کے بارے میں اس وقت تصور کرتے ہیں وہ صرف مادے کی سطح پر ہے جس کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔لیکن اس سے آگے ایک لامحدود حقیقت ہے جو کہ اس مادی تصور سے بھی بڑی ہے۔اس طرح ہمارا وجود اس دنیا کے بعد کی ایک دنیا کی قید میں ہے جس نے اس مادی وجود کو گھیر رکھا ہے۔یہ تصور کرتے ہوئے میرا وجود اس دنیا میں دماغ کی یادداشت یا ہارڈ وئیر پر نقش ہے جس کا پھیلاؤ کوانٹم فیلڈ تک ہے۔اس طرح میں کہ سکتا ہوں جب میں مروں گا تو میری زندگی کی یہ کوانٹم معلومات یا روح ضائع نہیں ہوگی کیونکہ جسم مرے گا لیکن روحانی کوانٹم فیلڈ جاری رہے گا۔اس طرح میں زندہ جاوید ہوں"۔
یہ تبصرہ پروفیسر ڈاکٹر ہینز پیٹر ڈور کا ہے جو کہ فرینکفرٹ جرمنی کے میکس ویل پلانک فزکس انسٹٹیوٹ کے سابق سربراہ ہیں۔
ایک اور سائنسدان روح کے وجود کو اس طرح ثابت کرتا ہے۔
ڈاکٹر کرسچن ہیلویگ۔۔۔۔۔Christian Hellweg....کے مطابق روح ایک کوانٹم حالت ہے۔اپنی فزکس اور طب کی تعلیم کے بعد انہوں نے میکس ویل پلانک فزکس انسٹٹیوٹ کے بائیو فزیکل کیمسٹری گوٹینگن میں دماغ کے افعال پر تحقیق کی ۔انہوں نے ظاہر کیا کہ انسان کے مرکزی اعصابی نظام یعنی دماغ و حرام مغز میں موجود یہ کوانٹم معلومات یا روح ایک خفیہ کوڈ ہے۔۔۔جس سے انسان کی ساری زندگی چلتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے خیالات،ہماری آگاہی اور محسوسات ایسی خصوصیات ظاہر کرتی ہیں جن کی وضاحت ہم روحانی خصوصیات یا روح کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔روح کی یہ خصوصیات کائنات کی بنیادی قوتوں یعنی کشش ثقل،برقی مقناطیسی یا الیکٹرو میگنیٹک قوت سے براہ راست تعامل نہیں کرتی۔لیکن یہ خصوصیات کوانٹم فزکس کے انتہائ پیچیدہ اور حیران کن مظاہر سے تعلق رکھتی ہیں۔جہاں ہم اپنی ذات کا حقیقی علم نہیں رکھتے کہ ہم کب اور کہاں ہیں۔روایتی فزکس کی بنیاد پر بھی یہ لازمی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا یہ کوانٹم یا روح پر مبنی تصور لازمی موجود ہے۔
پروفیسر رابرٹ جان جو پرنسٹن یونیورسٹی نیو جرسی امریکا سے تعلق رکھنے والے ہیں کے مطابق انسانی آگاہی یعنی روح اور مادی دنیا کے درمیان اثرات اور معلومات کا تبادلہ دونوں سمت میں ہوسکتا ہے۔اس سے ہم ایک گمگ یا ریزوننس یا مالیکیولر بائنڈنگ پوٹینشل تصور کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جس سے ہمارا جسم غیر مادی دنیا یا روح سے اپنا تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔۔یہ مالیکیولر بائنڈنگ پوٹینشل جو ہمارے مادی وجود کو متاثر کرتا ہے درحقیقت روح ہے۔
نیوکلیئر ماہر فزکس اور مالیکیولر بیالوجسٹ جیریمی ہیوارڈ ۔۔۔۔Jeremy Hayward......جو کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں کے مطابق کئ سائنسدان جو اب بھی سائنس کی اہم شاخوں کا حصہ ہیں،ان کے مطابق انسانی آگاہی زمان و مکان یا ٹائم اینڈ سپیس،مادہ اور توانائ کے علاوہ اس دنیا کا بنیادی عنصر ہے جس کا تصور زمان و مکان سے بھی زیادہ بنیادی ہے۔لہذا روح کے تصور پر پابندی لگانا غلط ہوگا۔جس کا مطلب ہے کہ روح اور غیر مادی دنیا کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
https://www.google.com.pk/…/scientists-say-they-have-…/amp/…
2011
ء میں ماہرین فزکس کی ایک ٹیم نے ظاہر کیا کہ کوانٹم فزکس کی جادوگری۔۔۔Quantum weirdness....انسانی دنیا میں بھی ہوتی ہے۔انہوں نے 430 ایٹم یا جواہر پر مشتمل بڑے مرکبات کا مطالعہ کیا یہ عجیب کوانٹم طرز عمل اس بڑی دنیا تک پھیلا ہوا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔یہ عجیب کوانٹم طرز عمل جو کہ ہمارے وجود کو متاثر کرتا ہے اس غیر مادی قوت کا ثبوت ہے جسے ہم روح کہتے ہیں۔
https://www.psychologytoday.com/…/does-the-soul-exist-evide…
کیمبرج یونیورسٹی،پرنسٹن یونیورسٹی اور میونخ جرمنی کے میکس ویل پلانک فزکس انسٹٹیوٹ جیسے مشہور عالم سائنسی اداروں کے سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ کوانٹم حرکیات یا کوانٹم ڈائنامکس موت کے بعد کی زندگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک انسان روح اور جسم کا مشترکہ وجود رکھتا ہے جو کہ ایٹم سے چھوٹے ذرات کے موجی ذراتی مشترکہ تصور کی ایک وسعت ہے۔
ان ماہرین فزکس یا طبیعیات کا دعوی ہے کہ وہ اس تصور کو جسم و روح کے دونوعیتی تصور۔۔۔Soul_Body Dichotomy تک وسعت دے سکتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اگر تمام زندہ اشیاء کے لیے ایک کوانٹم کوڈ یا روح موجود ہے تو پھر موت کے بعد کی زندگی بھی موجود ہے۔
یونیورسٹی آف ایریزونا امریکہ کے شعبہ انیستھیزیالوجی اور نفسیات کے سابق پروفیسر سٹووارٹ ہیمراف،سر روجر پینروز،جو کہ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ریاضیاتی سائنسدان کے مطابق انسانی دماغ کا تمام کام دماغ کے خلیوں یا نیورانز کے مائیکرو ٹیوبیولز میں ہونے والے کوانٹم ارتعاشات یا کوانٹم وائبریشن سے ہوتا ہے جو دماغ اور پھر اس کے ذریعے پورے جسم کو کنٹرول کرتی ہیں۔(یہ کوانٹم ارتعاشات درحقیقت روح کا ثبوت ہیں جو زندگی میں دماغ کو کنٹرول کرتی ہیں اورموت کے بعد کائنات میں چلی جاتی ہیں۔جیسا کہ مذہب کا تصور ہے)۔یہ کوانٹم ارتعاشات دماغ کے خلیوں کے مائیکرو ٹیوبیولز میں ایک زندگی یا آگاہی کا تصور پیدا کرتے ہیں جس سے ہوش و آگاہی و زندگی کے بنیادی افعال انجام دیے جاتے ہیں۔یہ کوانٹم ارتعاشات روح کا سائنسی ثبوت ہیں۔دوسرے لفظوں میں سائنسدانوں کو یقین ہے کہ وہ روح کی سائنسی وضاحت دریافت کر چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی اس حوالے سے 1998ء میں ہونے والی سائنسی پیشین گوئیاں پوری ہوچکی ہیں اور اب تک کوئ غلط ثابت نہیں ہوئ۔
ایک اور سائنسدان الیگزینڈر نے نیوزویک آرٹیکل میں لکھا کہ موت کو قریب سے دیکھنے والوں کے آسمان تک پہنچنے کے سائنسی دعووں کی وضاحت موجود ہے جہاں ہم انسان ایک وجود سے بڑھ کر ہیں اور جہاں موت ہمارا خاتمہ نہیں بلکہ ایک وسیع اور ناقابل شمار سفر کا ایک دوسرا باب ہے۔
اس طرح یہ سب سائنسی دلائل روح اور موت کے بعد کی ہمیشہ کی زندگی کی سائنسی دلیل فراہم کرتے ہیں اور ملحدین کو جھوٹا اور غلط ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ روح کا انکار کرتے ہیں۔یہ سب سائنسی دلائل روح کے متعلق کیے گئے رینی ڈیسکارٹز اور دوسرے ملحد لوگوں کے تصورات کا بھی غلط کرتے ہیں۔
توہمارے کوانٹم فزکس کے یہ سارے دلائل ثابت کرتے ہیں کہ روح صرف فرضی وجود نہیں بلکہ حقیقی وجود ہے اور یہ بات ملحدین کو جھوٹا ثابت کر دیتی ہے جب وہ روح اور موت کے بعد کی زندگی کا انکار کرتے ہیں۔یہ بات تھیوری آف ایولوشن کی بھی تردید کرتی ہے کیونکہ ایولوشن یا ارتقا والے آج تک روح کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تھیوری روح اور موت کے بعد کی ہمیشہ کی زندگی کی سائنسی وضاحت نہیں کرتی جب کہ جدید کوانٹم فزکس کی تحقیقات نے روح اور موت کے بعد کی زندگی کو ثابت کر دیا ہے۔
قرآن و حدیث میں جو روح کا تصور ہے بحیثیت مسلمان مجھے اس سے ذرا بھی اختلاف نہیں۔ جو سرے سے ہی روح کے وجود کا انکار کرے تو اسے ثبوت دینے کے لیے مضمون لازمی تھا کہ سائنس کے مطابق بھی روح کا وجود ثابت ہے۔
مجھے اسلام کو ثابت کرنے کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں لیکن جب ملحدین صرف سائنس کی بنیاد پر اسلام کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اسی سائنس سے ان کو دلائل دے کر چپ کرایا جاتا ہے۔اس سے مذہب بانجھ نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کا ایمان پختہ ہوتا ہے اور ملحد شرمندہ ہوتے ہیں۔کائنات خدا کی تخلیق ہے۔اس،کا زرہ زرہ خالق کی تصدیق کرتا ہے۔جوں جوں تحقیقات آگے بڑھیں گی اللٰہ اور اسلام کی صداقت نہ ماننے والوں کے لیے اور واضح ہوگی۔یہی وجہ پے کہ نامور کئ سائنسدان اور لوگ اسلام لارہے ہیں اور یورپ میں مسلمانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے پارہ پچیس میں فرمایا کہ ہم ان کو ان کی جانوں اور کائنات میں نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ ہمارا کہا سچ ہے۔اللٰہ تعالٰی کے اسی فرمان پر یقین رکھتے ہوئے میں کہ سکتا ہوں کہ آنے والی تحقیقات اسلام اور اللٰہ کا مزید ثبوت دیں گی اور مذہب کے لیے ان کا بیان کوئ غلط نہیں۔بلکہ ملحدین کے انکار و اعتراضات کے جوابات کے لیے لازمی ہے۔میں ان شاء اللٰہ زندگی بھر یہ سلسلہ جاری رکھوں گا۔
روح کا تصور مذہب نے ہی دیا اور اج سائنس ثابت کر رہی ہے لہذا یہودیت عیسائیت اور اسلام کا روح کا تصور ثابت ہورہا ہے۔ملحدین تو شروع ہی سے روح کے وجود کے منکر ہیں۔پھر وہ کیسے دعوی کر سکتے ہیں کہ روح کا تصور مذہب نے نہیں دیا۔مذہب کو ماننے والے سائنس کے نظریات کے بغیر بھی مانتے تھے لیکن آج سائنس ملحدین کو چپ کرارہی ہے اور کراتی رہے گی ان شاء اللٰہ۔
یہ ساری بحث جس ملحد سے ہوئ وہ ہمارے دلائل سے انکار نہیں کر سکا لیکن ایک ملحدنے ہماری دلائل کو جھٹلانے کی ثابت کی اور جواب میں روح کے خلاف ایک سائنسی آرٹیکل لے آیا جو کہ 2005 کا شائع کردہ اور سائنسی غلطیوں سے بھرپور تھا۔جب اس کے آرٹیکل کی غلطیوں کو پکڑا گیا،اور جدید کوانٹم فزکس سے 2012 اور اس کے بعد اب تک ہونے والی روح کی جدید تحقیق پیش کی گئ اور کوانٹم فزکس سے روح اور موت کے بعد کی زندگی کا وجود ثابت کیا گیا تو وہ بھی بھاگ گیا۔سائنس ثابت کر چکی ہے کہ روح اور موت کے بعد کی زندگی کا وجود حقیقی ہے۔اس مضمون میں ہماری بحث روح کے وجود کو ثابت کرنے پر زیادہ ہے۔موت کے بعد کی زندگی پر ہم مزید تفصیلی مضمون بھی ان شاء اللٰہ آپ حضرات کے سامنے پیش کریں گے۔اس ساری بحث میں اللٰہ تعالٰی نے ہماری بھرپور مدد کی اور ہمارے روح کے حق میں جدید سائنسی دلائل پر ملحدین نہ ٹھہر سکے اور بھاگنے میں عافیت جانی۔
اس کے علاوی فیس بک کی ایک مشہور پی ایچ ڈی پاس ملحدہ جو عوام کو الحادی ارتقا کی تعلیم دیتی ہیں ان کے سامنے یہ دلائل پیش کیے گئے تو محترمہ نے ماننے سے سیدھا یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ جھوٹی سائنس ہے بلکہ اپنا جھوٹ پکڑے جانے کے ڈر سے میرے روح کے حق میں دیے گئے سائنسی دلائل کے کمنٹس ڈیلیٹ کر دیے تاکہ کوئ اور نہ پڑھ سکے ۔محترمہ مجھے سائنسی ہدایات دے رہی تھی جب کہ مجھے سکھانے سے پہلے خود سیکھیں ۔اپنی جہالت اور فردسودہ سائنس عوام کے سامنے بیان کر کے ان کو پاگل نہ بنائیں۔ جب بات ہوتی ہے تو ملحد لوگ روح کے حق میں موجود کوانٹم فزکس کے سائنسی دلائل اور جدید تحقیقات کا انکار کردیتے ہیں۔وہ سائنسی تحقیق جو میں نے اوپر دنیا کے نامور ساینسی اداروں کے جدید سائنسدانوں کے حوالہ جات کے ساتھ بیان کی۔ یہ لوگ ایک طرف فیس بک پر سائنس اور عقلیت کو فروغ دینے کا دعوی کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف اس سائنسی تحقیق کا انکار کر دیتے ہیں جو کہ اللٰہ تعالٰی کی ذات اور روح کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔یہ لوگ سائنس پھیلا رہے ہیں یا جہالت؟
یہ لوگ اپنے فرسودہ ارتقاء میں خوش ہیں۔صرف یہ ٹھیک ہیں۔؟جرات ہے تو اس روح کی ریسرچ کا انکار اپنی کوانٹم فزکس کی تحقیق سے کر کے دکھائیں یہ فیس بکی دانشور تاکہ نوبل پرائز کے حقدار بنیں۔باقی سب سائنسدان جن لوگوں نے کوانٹم فزکس پر ریسرچ کی وہ پاگل ہیں؟پھر ان کو ان کی تحقیقات غلط ثابت کرنے پر نوبل پرائز ملنا چاہیے کیونکہ یہ ملحد لوگ اپنی کسی تحقیق سے نہیں روایتی ارتقائ ضد اور نہ ماننے کی روایت سے ان کا انکار کر دیتے ہیں ۔اپنے الحادی نظریات کو بچانے کے لیے جدید بین الاقوامی سائنس کا بھی انکار۔لگے ہیں پچاس سال پرانی فرسودہ محدود سائنس میں یہ دعوی کر کےکہ روح کا کوئ وجود نہیں اور معصوم عوام سے جدید سائنسی تحقیقات چھپا کر ان کو الحاد کی طرف دھکیل رہے ہیں۔جب کہ ہم نے اوپر بین الاقوامی سائنسدانوں کی تحقیقات سے روح کے ایک نہیں کئ سائنسی دلائل بیان کیے۔
ملحدین کو چاہیے کہ روح اور موت کے بعد کی زندگی کے یہ سائنسی دلائل پڑھیں اور خدا اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان لے آئیں کیونکہ اسلام کے روح اور موت کے بعد کی زندگی کا وجود جدید سائنس بھی ثابت کر چکی ہے۔
جدید سائنس کارل مارکس،چارلس ڈارون،رچرڈ ڈاکنز،سگمنڈ فرائیڈ،برٹرینڈ رسل اوران کے دیسی ملحد چیلوں سبط حسن،علی عباس جلال پوری،ارشد محمود کے الحاد کا جنازہ پڑھ رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ملحدین کے کہنے میں آنے کی بجائے وہ سائنس پڑھے جو یہ ملحد اپنے الحاد ی نطریے غلط ثابت ہونے کے ڈر سے عوام کے سامنے نہیں آنے دیتے۔
بحمدللہ تعالٰی۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن


Monday, September 5, 2016

MAUJZA KI SCIENSI TASHRIH ( चमत्कार और विज्ञानं )

معجزے کی سائنسی تشریح

8-650x266
تحریر : ذی شان وڑائچ
جب سے انسانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس مادی دنیا کو سمجھنے پر زور دیا اور اس کو اپنے فوائد کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو مذاہب پر بہت سارے نئے اعتراضات کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی لے کر حاضر ہوا۔ اس کے نتیجے میں کچھ مسلمانوں کو جوابات دینے میں کچھ زیادہ ہی دقتیں پیش آئیں اور کچھ مخلص مسلمانوں نے تو جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پر ہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کر لئے۔ اس کی اصل وجہ مسلمانوں کا ان جدید علوم کی حقیقت سے نابلد ہونا اور خود اعتمادی کی شدید کمی تھی جبکہ سائنسی علوم کو پیش کرنے والے اپنی علمیت پر بہت پر اعتماد تھے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں شکوک و شبہات کا بخوبی جواب دے دیا گیا لیکن ہمارا ایک طبقہ ابھی بھی شکوک و شبہات میں ہی جی رہا ہے۔
چونکہ باطل ایک ہی حالت میں نہیں رہتا، بھیس بدل بدل کر اور مختلف وسائل کو استعمال کر کے آتا ہے، اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ جو پرانے سوالات نئی نسل کے سامنے بالکل نئے انداز میں سوشیل میڈیا کے ذریعے سے سامنے آرہے ہیں ان کا اسی طرح جواب دیا جائے۔
تو سوال یہ ہے کہ آیا معجزات کا صادر ہونا سائنس سے مطابقت رکھتا ہے؟
اس بارے میں پہلے تو معجزات و کرامات اور سائنس کی حقیقت کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے۔
کلام پاک میں انبیاء کے معجزات کے جو واقعات پیش کئے گئے ہیں ان کو وسیع تر معنوں میں دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اول یہ کہ جب رسول اپنی نبوت کا دعوی پیش کرتے تھے تو یہ ایک بہت بڑا دعوی ہوتا تھا۔ ایک انسان جب یہ دعوی کرے کہ میں رب العالمین کا نمائندہ ہوں اور اس کی طرف سے اس کے احکامات سنانے جارہا ہوں تو یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ رسول کے اس دعوے کی دلیل کیا ہے۔ اس کے لئے اگرچہ رسول کی سیرت، اخلاق، طبعی سلامت روی اور رسول کا سنایا ہوا پیغام خود سے دلیل ہوتا تھا لیکن ہر ذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتا تھا اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیا جاتا جو کہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔ لیکن اس بات کا فیصلہ کہ آیا ایسا کوئی خرق عادت واقعہ پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں اس کا فیصلہ رب العالمین خود کرتا تھا۔ اور اس واقعہ کا اصل فاعل اللہ ہی ہوتا تھا۔ مثلاً عیسی، صالح اور موسی علیہم السلام سے متعلق قرآن پاک میں ایسے واقعات کا ذکر ہے، لیکن نوح، ہود، لوط علیہم السلام کے معاملے میں ایسے کسی واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات سمجھنے کی ہے کہ یہ خرق عادت واقعات خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے پیش نہیں کئے گئے، بلکہ اصلاً رسول کو رسول ہونے کی دلیل کے طور پر اور ضمناً رسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کئے گئے۔ یہاں پر یہ واضح ہو کہ کسی نبی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے خرق عادت کام کر کے دکھا سکتا ہے۔
دوسری قسم کے معجزات وہ ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے کسی نبی کی مدد و نصرت کے لئے پیش آئے۔ اس مدد میں نبی کو تعلیم دینا، نبی کے دل میں اطمینان و سکینت کا پیدا کرنا، نبی کو دشمنوں کی دشمنی سے بچانا یا نبی کی کسی خاص ضرورت کو خرق عادت طریقے سے پورا کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اس قسم کا معجزہ بھی کسی انسان کی مرضی پر منحصر نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس کو پبلک مقامات پر یا لیباریٹری میں اس کا مظاہرہ کر کے دکھائے۔
کچھ معجزات ان دونوں قسموں پر محیط ہیں جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہونا۔
کرامات ان خرق عادت چیزوں کو کہا جاتا ہے جو کہ کسی غیر نبی کے ذریعے سے پیش آئے۔ چونکہ کسی غیر نبی کےلئے پہلی قسم کی خرق عادت چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے کرامات کی شکل میں صرف دوسری قسم باقی رہ جاتی ہے۔
جدید سائنس علمیت کی ایک شاخ ہے جو کہ مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہے۔ کسی چیز کے سائنس ہونے کے لئے ضروری ہے کہ علم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہو۔ اور ان مشاہدات اور تجربات کا صرف ایک بار ہونا کافی نہیں ہے بلکہ بقدر ضرورت اس کو دہرانا بھی ضروری ہے۔ اور مزید یہ کہ ان مشاہدات اور تجربات سے جو علمی نتائج اخذ کئے جاتے ہیں اس کی بنیاد پر آگے کی پیشن گوئی بھی ممکن ہو۔ علم و تحقیق میں سہولت کے لئے سائنس کچھ بنیادی اصول بھی طئے کرتا ہے۔ مثلاً یہ دعوی کہ مادہ اور قوت نہ پیدا کی جاسکتی ہے اور ختم کی جاسکتی ہے۔ اس کائنات کے اندر جو بھی مادہ اور قوت ہے وہی چیز اپنی شکلیں تبدیل کرتی رہتی ہے۔ سائنس کا یہ بھی دعوی ہے کہ کائنات ایک بند نظام (Closed system)ہے۔ یعنی سائنس کا دعوی ہے کہ اس کائنات کے اندر جو بھی ہوتا ہے اس کی علت اسی کائنات کے اندر موجود ہے۔ واضح ہو کہ یہ دونوں نکات یعنی مادہ اور قوت کا کائنات کے اندر محدود ہونا اور کائنات کا ایک بند نظام ہونا، وہ بنیادی مفروضات ہیں جن پر سائنسی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔
سائنس کے یہ دونوں اصول سائنسی تحقیق کیلئے بہت بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر سائنسی تحقیق کے لئے پہلے ہی سے یہ اصول نہ گھڑے ہوتے تو اتنی سائنسی ترقی ممکن نہ ہوتی۔ اگر انسان ہر واقعے کو کائنات سے باہر کی کسی با ارادہ ہستی سے منسوب کرتا تو پھر وہ قواعد اور قوانین جن کے تحت کائنات چلتی ہے کا دریافت کیا جانا انتہائی مشکل ہوتا۔ پھر انسان کسی قانون کی دریافت کے بجائے اس بیرونی قوت کے ارادے کو معلوم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ سائنسی تحقیق میں تجربہ و مشاہدہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اس لئے سائنس کا بہت بڑا حصہ استقرائی منطق پر مبنی ہے۔ یعنی سائنسدان ایک نتیجے کو اخذ کرنے کیلئے مختلف تجربات کر کے اس کو دہراتے ہیں اور جب تمام تجربات اس نتیجے کی تائید کرتے ہیں تو اس نتیجے کی توثیق کردیتے ہیں کہ ہمیشہ اس تجربے کا لازمی طور پر یہی نتیجہ نکلے گا۔
اس طرز تحقیق میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ محدود تجربے کو بنیاد بنا کر لا محدود نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔
اس طرز تحقیق کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک نتیجے کی وجہ معلوم ہوئے بغیر صرف تجربے کی بنیاد پر اس نتیجے کو قبول کر لیا جاتا ہے۔
مثلا جب نیوٹن نے یہ دیکھا کہ درخت سے سیب ہمیشہ نیچے گرتا ہے، اونچائی پر چڑھنے کے لئے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہوئے اپنے مدار سے باہر نہیں نکل پاتے اگرچہ عام طور پر چیزیں خط مستقیم میں ہی سفر کرتی ہیں تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مادہ اپنی کمیت کے مطابق دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔ اس کھینچنے کی خصوصیت کو کشش ثقل کہتے ہیں۔ اور اسی بنیاد پر ہم علم ریاضی کے فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے کسی جسم کی حرکت کے بارے میں پہلے ہی سے بتا سکتے ہیں اس کی حرکت کیسی ہوگی۔ لیکن اس تحقیق سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ مادہ کیوں دوسرے مادے کو کھینچتا ہے۔
بہت سارے معاملات ایسے ہیں جو کہ ہمارے شعور سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہم اوپر بیان کئے گئے سائنسی علوم کے دائرے میں اس کی تشریح نہیں کرپاتے۔ مثلاً یہ سوال کہ کائنات ہمیشہ سے وجود رکھتی ہے یا کسی محدود وقت سے پہلے بنی، کائنات کا کوئی خالق ہے یا نہیں، انسانی شعور کی کیا حقیقت ہے؟ آیا یہ ہمارے حیاتیاتی دماغ کا ہی حصہ ہے یا اس سے خارج میں کوئی چیز۔ اس طرح کے معاملے میں اپنی عقل کو استعمال کر کے غور و فکر کیا جاتا ہے اور استخراجی منطق کو استعمال کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ہمارے مشاہدے اور تجربے کا بہت محدود ہونا ہے۔ اس کو معقولات کہتے ہیں۔
علم فلسفہ کی ایک بنیادی بحث یہ ہے کہ علم کا منبع تجربات ہیں یا معقولات۔ ہم فی الحال اس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن یہاں پر اس بات کی وضاحت کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ سائنسی علوم کی کچھ حدود ہیں۔ سائنس فی نفسہ تمام علوم کا احاطہ نہیں کرتی۔
چونکہ سائنس اوپر بیان کردہ کچھ بنیادی مفروضات رکھتا ہے اس لئے ہم کبھی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ سائنسی دریافت سے جو علم حاصل ہوا وہ حتمی ہے۔
چونکہ سائنس محدود تجربات سے لاحدود نتائج اخذ کرتی ہے اس کی وجہ سے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ اگر حالات یا دئیے گئے پیرامیٹر میں کوئی جوہری تبدیلی آگئی تو نتیجہ ہمارے علم کے مطابق ہی نکلے گا یا نہیں۔
چونکہ سائنس کسی نتیجہ کی وجہ بتانے سے قاصر ہے اس لئے ہم کبھی نہیں کہہ سکتے کہ جو چیز سائنس کے نزدیک آج حتمی کل بھی حتمی ہی رہے گی۔ سائنس کسی ظاہرے کی وجہ بتاتی ہے تو پھر اس کے جواب میں ایک اور “کیوں” چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جب اس نئے کیوں کا جواب ملتا ہے تو اس کے پیچھے ایک اور کیوں ضرور ہوتا ہے۔
سائنس کی غیر یقینیت کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ نیوٹین نے اپنے تجربات کی بناء پر کشش ثقل (Newton’s law of gravitation)دریافت کیا۔ اسی طرح نیوٹن نے حرکیات کے تین مشہور کلیے (Newton’s laws of motion)دریافت کئے۔ جس کی وجہ سے نیوٹن کو دنیا کا سب سے عظیم تر سائنسدان مانا جاتا ہے۔
لیکن جب تکنالوجی میں زیادہ ترقی ہونے کی وجہ سے درست ترین پیمائش کے نئے طریقے ایجاد ہوئے تو پتہ چلا کہ نیوٹن کے کلیات سے اخذ ہونے والے نتائج میں واضح طور پر غلطی موجود ہے جو کہ نئے پیمائش کے طریقوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں آئنسٹاین نے دو نظریات پیش کئے جنہیں Special theory of relativity اور General theory of relativity کا نام دیا جاتا ہے۔ عام نظریہ اضافت یا General theory of relativity کے مطابق جہاں پر بھی مادہ ہوتا ہے وہاں پر خلا مادے کی طرف ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ویسے تو ایک جسم body خلا میں سیدھ میں ہی جارہا ہوتا ہے لیکن چونکہ خلا ہی ٹیڑھا ہوگیا ہے اس لئے وہ مادے کی طرف جھک جاتا ہے۔
اسی طرح حرکیاتی تحقیق کرتے ہوئے پتہ چلا کہ جب کوئی جسم body بہت زیادہ رفتار سے حرکت کرتی ہے تو نیوٹن کا دیا گیا فارمولا فیل ہوجاتا ہے۔ آئنسٹائن نے تحقیق کر کے بتایا کہ body کی رفتار روشنی کی رفتار سے جتنی زیادہ قریب ہوگی نیوٹن کے فارمولے میں اتنی زیادہ غلطی ہوجائے گی۔ اس کے حل کےلئے آئنسٹائن نےنئی تحقیق پیش کی جسے خاص نظریہ اضافت کہا جاتا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق کسی جسم کی رفتار کی بنیاد پر فاصلہ اور وقت سکڑ کر چھوٹے ہوجاتے ہیں۔اسی نظریے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وقت بھی خلا کا ایک بعد (Dimension) ہے۔ یعنی جس طرح لمبائی چوڑائی اور اونچائی خلا کے ابعاد ہیں اسی طرح وقت بھی خلا کا ہی ایک حصہ ہے۔ اسی نظریے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مادہ اور قوت ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ مادے کو قوت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور قوت کو مادے میں۔ اسی نظریے کو بنیاد بنا کر ایٹمی تحقیق کی گئی اور یورینیم نامی مادے کو جزوی طور پر قوت میں تبدیل کردیا گیا۔ جس کو ایٹم بم اور نیوکلیر ریکٹر میں استعال کیا جاتا ہے۔
ان دونوں نظریات نے سائنسی دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کردیا جس کی وجہ سے انسان وجود، وقت، خلا اور مادے کو بالکل ہی دوسرے انداز میں دیکھنے کے قابل بن گیا۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی جان لیں کہ آئنسٹائن کے ہی دور میں نظریہ اضافت سے آگے بڑھ کر ایک تھیوری ایجاد ہوئی جسے کونٹم تھیوری Quantum Theory کہتے ہیں۔ اس نے مزید کچھ گتھیاں سلجھائیں تو مزید کچھ الجھنیں پیدا کیں۔قوانٹم فزکس دراصل مادے اور قوت کے بنیادی ذرات سے متعلق نئی تحقیق تھی۔ اب تک سائنس کا نظریہ تھا کہ کائنات میں موجود ہر چیز ایک لگے بندھے قاعدے کے مطابق چلتی ہےاور اگر ہمیں ان قواعد کا علم ہو تو ہر ہر ذرے کی حرکت یا رویے کے بارے میں بالکل صحیح پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ لیکن کوانٹم فزکس نے ثابت کیا کہ انتہائی بنیادی ذرات کی سطح پر مادے کا رویہ بے ترتیب اور غیر متعین (Random) ہوتا ہے۔ ہاں ان ذرات کے مجموعی رویے یا حرکت کے اوسط کا تعین کیا جاسکتا ہے۔
آئنسٹائن کے عام نظریہ اضافت اور قوانٹم تھیوری میں تناقض ہے اور اب تک اس تناقض کو دور کرنے کی راہ نہیں نکل سکی۔ اس تناقض کو دور کرنے کے لئے سائنسدانوں کی تجویز یہ ہے کہ خلا کے چار ابعاد(Dimensions) کو ماننے کے بجائے مزید ابعاد کو مانا جائے جن کا ادراک انسان کا شعور نہیں کرسکتا۔
اوپر بیان کردہ کشش ثقل کی مثال سے کچھ باتیں واضح ہوتی ہے۔
چیزوں کا نیچے گرنا عام مشاہدے کی چیز ہے جس سے ہر کوئی واقف ہے۔ جب اشیاء اورقوانین فطرت کے بارے میں انسان متجسس ہوا تو اس وقت کی معلومات کے پیش نظر کشش ثقل کا نظریہ تیا ر ہوا اور تقریباً تین صدیوں تک اس کو قابل قبول سمجھا گیا۔
لیکن جب نئی معلومات اور پیمائش کے آلے تیار ہوئےتو جو نظریہ تین صدیوں تک قابل قبول تھا اس کی غلطی واضح ہوگئی۔
اس کے بعد نئے نظریے کی تدوین ہوئی جو کہ ریاضیاتی حساب سے تو بالکل صحیح ہے لیکن کونٹم فزکس کا نظریہ اس نظریہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں نظریات کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ نظریہ پیش کا گیا کہ خلا کے چار سے زیادہ ابعاد (Dimensions) ہیں۔
اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں بالکل ہی صحیح ہیں کہ سائنس کی کوئی بھی تحقیق حتمی نہیں ہے۔ جب تک نئی دریافتیں اور نئی معلمومات حاصل ہوتی رہیں گی سائنس اپنے نظریات بدلتی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ہم یہ دعوی کر سکیں کہ سائنس نے کسی بھی قانون کی مکمل حقیقت دریافت کرلی۔
سائنس کی دریافتوں میں تضاد اور خلا موجود ہوتے ہیں اور سائنس دان ان تضادات میں مطابقت پیدا کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔
چونکہ موجودہ دور کی محیر العقول دریافتوں کی نظیریں تاریخ انسانی میں نہیں ملتی اس لئے کچھ سائنس گرد اس سائنسی ترقی سے شدید متاثر ہوکر یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ اس دور میں معقولات غیر ضروری چیز ہیں اور سائنسی طریقہ ہر قسم کی علمی ضرورت کو کفایت کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان محیر العقول دریافتوں کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سائنس کی ہر نئی دریافت قانون فطرت کی ایک پرت کو کھول دیتی ہے اور اس کے نیچے ایک اور پرت ہوتی ہے جو اس بھی زیادہ دبیز ہوتی ہے۔ اس لئے انسانی علوم سے معقولات کو ختم کر کے سائنس کو معقولات کی جگہ دینا ایک بے کار کی کوشش ہے۔ سائنس نے چاہے جتنی ترقی کر لی ہو، ابھی معقولات کا متبادل بننے کا دعوی بہت جلد ہے۔ اس لئے سائنس کا دائرہ اپنی حدود میں ہی رہے گا۔ ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سائنسی ترقی نے ہمارے رہن سہن اور انداز فکر میں بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ لیکن یہ دعوی کہ سائنس کسی بھی چیز کی مکمل حقیقت معلوم کرسکتی ہے ایک بے بنیاد دعوی ہے۔ سائنس آگہی کا ایک آلہ (Tool) ہے جس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
اب آتے ہیں معجزے کی سائنسی توجیہہ پر۔ اس بارے میں دو ممکنہ مؤقف ہوسکتے ہیں۔
ایک یہ کہ جو بھی معجزے ہوئے وہ قانون فطرت کے مطابق ہی ہوئے۔ لیکن چونکہ ہم ابھی قانون فطرت سے مکمل واقفیت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کا دعوی کرتے ہیں اس لئے ان معجزات اور معلوم قوانین فطرت کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہاں پر یہ واضح ہوکہ معجزات کے قوانین فطرت کے مطابق ہونے سے معجزے کی اصل حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ مثلاً اگر کوئی کل کو یہ ثابت کرے کہ موسی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کی سائنسی توجیہہ ممکن ہے پھر بھی ان راستوں کے بننے اور عین موسی علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ عین اسی وقت دریا کے پاس پہونچنے کی ٹائمنگ کی توجیہہ صرف ارادہ خداوندی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ یہ حسن اتفاق بہرحال اخلاقی ہی ہے نہ کہ سائنسی۔
اس بارے میں دوسرا مؤقف یہ ہوسکتا ہے کہ اگرچہ اللہ کے حکم سے کائنات کا ذرہ ذرہ ایک لگے بندھے سائنسی قانون کے مطابق چل رہا ہے، اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی مخلوقات اللہ کے حکم سے ان قوانین سے انحراف نہیں کرسکتی۔ یہ ماننا کہ تمام مخلوقات قوانین فطرت کے مطابق ہی چلتی ہے اور اس سے انحراف نہیں کرتی، سائنس کا ایک مفروضہ ہے جس کے بغیر سائنس ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی۔ لیکن یہ دعوی کے یہ کلی و بدیہی حقیقت ہے ایک لغو ترین دعوی ہے۔
اس لئے معجزات کی سائنسی توجیہہ دینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جب سائنس یہ دعوی کرنے کے قابل ہو جائے کہ اس نے کائنات کی تمام حقیقتوں کو دریافت کے لیا تب سامنے آئے۔ ہم پھر بات کر لیتے ہیں۔
اوپر یہ واضح ہوچکا ہے کہ دونوں قسم کے معجزات میں صاحب معجزہ یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ جب چاہے اپنی مرضی سے معجزے دہرا سکتا ہے۔ اس لئے معجزے تجرباتی سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔
اس تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیاد پر معجزے پر اعتراض کرنے والے بنیادی طور پر دو غلطیوں پر اصرار کرتے ہیں۔
اول یہ کہ وہ سائنسی دریافتوں کو حتمی سمجھتے ہیں اور دوم یہ کہ وہ تمام علوم کو نیچرل سائنس کے دائرے کے اندر سمجھتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ پہلے مؤقف کو ماننے کی صورت میں یہ بات غیر ثابت شدہ ہوجاتی ہے کہ سائنس اور معجزے میں تناقض موجود ہے۔ اور دوسرے مؤقف کو ماننے کی صورت میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ معجزے اور سائنس میں مطابقت پیدا کی جائے۔کسی چیز میں اندرونی تضاد ہونا ایک علیحدہ بات ہے اور کسی چیز کا سائنس کے مطابق نہ ہونا ایک الگ بات۔
اس سطح پر جاکر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معجزے کو دوبارہ تجربہ کر کے دہرایا نہ جائے تو پھر معجزے کے ماننے کے کیا معنی ہیں۔ اول تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ معجزے کو ماننا کوئی اسلام کی بنیادی دعوت نہیں ہے۔ جن لوگوں نے معجزے کا مشاہدہ کیا ان کے لئے معجزہ نبی کی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن خاتم الانبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہم یہ دعوت نہیں دیتے کہ چونکہ نبی نے شق القمر کا معجزہ کیا ہے یا نبیﷺ نےمعراج کا سفر کیا ہے اس لئے انہیں نبی مانا جائے۔ آج کے دور میں معجزے پر ایمان کی حیثیت ایک عقیدے کی بحث ہے نہ کہ نبوت کی دلیل۔ ہم معجزے کو اس لئے مانتے ہیں کیوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ فطری قوانین جن کی تگ و دو سائنس کرتا ہے وہ اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور اللہ چاہے تو جب چاہیں انہیں تبدیل کردے۔ یہاں پر واضح ہو کہ کچھ لوگ سائنسی قانون کو سنت اللہ قرار دے کر یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔ کلام پاک میں سنت اللہ کسی اور ہی چیز کو کہا گیا ہے اس لئے اس بارے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ سنت اللہ وہی کچھ ہے جس کو اللہ اپنی سنت قرار دے۔
آج کے دور میں ہم اسلام کی دعوت قرآن کی بنیاد پر دیتے ہیں جو کہ خود نبی کا ایک زندہ معجزہ ہے اور آج بھی قابل مشاہدہ ہے۔ یہ قرآن انسان کی منطقی، جمالیاتی، اخلاقی اور کلامی حس سے اپیل کرتا ہے۔ جو لوگ ہدایت کے لئے حسی معجزات کا تقاضا کرتے ہیں تو دراصل ایمان بالغیب کا انکار کرتے ہیں۔ یعنی ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر ایمان لانا ہے اس کے لئے معقول دلیل نہیں بالکل مشاہدہ ضروری ہے۔ قرآن کےبالکل ہی ابتداء میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہدایت کےلئے شرط ایمان بالغیب ہے۔ معجزے کے ذریعے مشاہدے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے اللہ کی حکمت یہی رہی کہ اب انسان اپنے شعور، جمالیاتی اور اخلاقی حس کی بنیاد پر ایمان لے آئے۔
ہماری اس بحث سے کچھ نتائج واضح ہو جاتے ہیں۔
۱۔ فی زمانہ ہماری دعوت کی بنیاد حسی معجزات نہیں بلکہ انسانی شعور سے اپیل کی بنیاد پر ہے۔ آج کے دور میں معجزات کی حقیقت ایک عقیدے کے طور پر ہے نہ کی دعوت کی بنیاد کے طور پر۔ معجزے صرف وقتی طور پر غیب کے پردے کو ہٹانے کے لئے تھے۔ ہدایت کے لئے ایمان بالغیب ہی شرط ہے۔
۲۔ کسی چیز کا مشاہدہ یا تجربہ نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ چیز خلاف عقل ہے۔علوم کی بہت ساری جہتیں صرف معقولات پر انحصار کرتی ہیں۔
۲۔ سائنسی اعتبار سے یہ دعوی کرنا درست نہیں ہے کہ سائنس حقیقت کے تمام جوانب سے واقف ہوچکی ہے اس لئے معجزے کے صحیح ہونے کے لئے معلوم سائنسی اصولوں کے مطابق ہونا کوئی ضروری نہیں۔ موجودہ سائنسی علوم میں خود اس کے اندرونی تضادات موجود ہیں۔
۳۔ سائنس انسانی علوم کی صرف ایک جہت ہے۔ انسانی علوم کے کچھ پہلو سائنس کے دائرے میں نہیں آتے۔ اس لئے معجزات کی سائنسی تشریح غیر ضروری ہے۔
۴۔ اسلامی عقیدے کے مطابق معجزات اور کرامات کو کوئی انسان اپنی مرضی سے تجربہ کر کےاس کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے معجزے کو سائنسی تجربہ کر کے ثابت کرنے کوشش عبث ہے۔ جب دعوی ہی موجود نہیں تو ثبوت کی طلب بے معنی ہے۔